مسئلہ حاضر و ناظر پر ایک علمی اور تحقیقی نظر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

                                نور الٰہ کیا ہے ؟ محبت حبیب کی!

جس دل میں یہ نہ ہو وہ جگہ خوک و خر کی ہے

معلم کائنات محسن انسانیت رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا مالک و مختار، غیب داں اور حاضر و ناظر ہونا اہل اسلام کے نزدیک ہمیشہ سے مسلم رہا ہے مگر وہ لوگ جو ہمارے معاشرہ میں ایک خودرو پودے کی طرح برآمد ہو گئے ہیں اور ہمارے مستند ماضی سے کٹ کر اپنا الگ تھلگ وجود رکھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ سے آقائے کریم علیہ التحیۃ التسلیم کے فضائل و مناقب بیان کرنے کی بجائے ذات والا صفات کے اندر معائب و نقائص کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ حد یہ کہ وہ چیزیں جن کی پشت حقانیت پر صدیوں کی بوجھل شہادتیں ہوتی ہیں انھیں یک لخت نظر انداز کرکے امت کے مزاج اتحاد کو برہم و برگشتہ کرکے انتشار و تشکیک کی بھیانک فضا قائم کر دیتے ہیں۔ اس پر لطف یہ کہ خود کو “اتحادی“ کہتے بھی نہیں تھکتے۔ ایسے ہی مسائل میں سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا حاضر و ناظر ہونا بھی ہے۔ آئیے تعصب کی عینک اتار کر، مذہبی چپقلش بالائے طاق رکھ کر اور چشم انصاف وا کرکے اس مسئلہ کی نوعیت کا جائزہ لیا جائے۔ واللہ ہوالموقف الٰی سبیل الرشاد ۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی شخصیت اب کسی تعارف کی محتاج نہ رہی، سر زمین ہند پر اشاعت حدیث کے سلسلے میں آپ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان کے حنفی انھیں کے طفیل میں حنفی ہیں، آپ نے اپنی مشہور کتاب “مسلوک اقرب الشبل“ میں تحریر کیا ہے کہ : باچندیں اختلاف و کثرت مذاہب کہ در علمائے امت است یک کس رادیں مسئلہ خلافے نیست کہ آں حضرت بحقیقت حیات بے شائبہ مجازو تو ہم تاویل دائم و باقی است و براعمال امت حاضر و ناظر و مرطالبان حقیقت رادمتو جہان آنحضرت را مفیض و مربی۔
یعنی علمائے امت میں اتنے اختلافات اور مذاہب کی کثرت کے باوجود اس مسئلہ میں ایک شخص کا بھی اختلاف نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بغیر شائبہ مجاز اور بلا کسی توہم تاویل حقیقی زندگی کے ساتھ دائم و باقی ہیں۔ امت کے احوال پر حاضر و ناظر ہیں، طالبان حقیقت اور آپ کی طرف توجہ خاص کرنے والوں کو فیض بخشنے والے اور تربیت دینے والے ہیں۔

اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: یایھا النبی انا ارسلنک شاھدا و مبشرا و نذیرا۔ (احزاب45) اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمھیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔ (کنزالایمان)
لفظ شاہد شہود سے مشتق ہے اور شہود حضور ہے۔ شاہد مشاہدہ سے ہے اور مشاہدہ رویت سے۔ تو ہو بےکس شاہد ہیں، بےشک حاضر ہیں۔ بےشک ناظر ہیں۔ دعائے میت میں جو لفظ “شاھدنا“ آتا ہے وہ اسی شہود سے مشتق ہے جس کے معنی حاضر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد پھر “غائبنا“ کہا جا رہا ہے۔ یا یہ شہادت سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گواہی دینا اس مادہ سے شاہد کے معنی گواہی دینے والا ہوا۔ بہر تقدیر شاہد حاضر و ناظر اور گواہ تین معنوں کے درمیان محصور ہوا اور ہر تقدیر پر نبی اکرم کا حاضر و ناظر ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ شاہد کا معنی گواہ لینے کی صورت میں بھی ہمارا مقصود حاصل ہے، کیونکہ شریعت مطہرہ میں دیکھی ہوئی چیزوں ہی کی گواہی مقبول ہے، ان دیکھی کی مردود۔

طبرانی، معجم کبیر، میں نعیم بن حماد، کتاب الفتن میں اور ابونعیم دلائل میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان اللہ رفع لی الدنیا فانا انظر الیھا والی ماھو کائن فیھا الٰی یوم القیامۃ کانما النظر الی کفی ھذہ جلیانا من اللہ جلاۃ لی کما جلاۃ للنبیین من قبلی۔ بےشک اللہ نے میرے سامنے دنیا اٹھائی تو میں دیکھ رہا ہوں دنیا اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کچھ ایسا جیسا کہ اپنی اس ہتھیلی کو دیکھتا ہوں یہ اللہ کی طرف کی روشنی ہے جو اس نے میرے لئے کی ہے جیسے مجھ سے پہلے انبیاء کے لئے کی تھی۔

جامع ترمذی و سنن دارمی وغیرہما کتب معتبرہ میں بروایات صحیحہ حضرت سیدنا معاذ بن جبل دس جلیل القدر صحابہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اتانی ربی فی احسن صورۃ فقال لی یامحمد فیمر یختصھا الملاء الاعلٰی۔ میرا رب میرے پاس تشریف لایا جو عقول سے وراء الورا اور اس کی جلالت و عزت کے شایان شان ہے اور اس وقت میں سب سے بہتر حال میں تھا اس نے فرمایا اے محمد! ملا اعلٰی باہم کس بات میں مباہات کر رہے ہیں ؟ میں نے عرض کی اے میرے رب تو خوب جانتا ہے۔ فوضع یدہ بین کتفی فوجدت بردھا بین ثدی۔ اس نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا، اس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں پائی۔ اس ہاتھ رکھنے سے کیا ہوا، فرماتے ہیں : فعلمت مافی السمٰوت والارض۔ پس میں نے زمین و آسمان کی ساری چیزیں جان لیں۔ فعلمت مابین المشرق والمغرب اور میں نے مشرق و مغرب تک کی جملہ اشیاء معلوم کر لیں۔ فتجلٰی لی کل شیء و عرفت۔ تو ہر چیز مجھ پر روشن ہو گئی اور انھیں میں نے اچھی طرح پہنچان لیا۔

حضور کے ایک چہیتے غلام غوث الانام شیخ عبدالقادر جیلانی کی شان ملاحظہ کیجئے فرما رہے ہیں: السعداء والا شقیاء یعرضون علی وان عینی فی اللوح المحفوظ ۔ بےشک تمام سعید و شقی مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں اور بےشک میری آنکھ لوح محفوظ میں ہے۔ نیز “قصیدہء غوثیہ“ شریف میں فرماتے ہیں:

نظرت الٰی بلاد اللہ جمعا
کخردلۃ علی حکم اتصال
میں نے اللہ کے تمام ملکوں کو ایسا دیکھا جیسے وہ سب مل کر میرے سامنے رائی کے ایک دانہ کے برابر ہوں۔

حضرت شیخ بہاءالحق والدین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ نے فرمایا۔ مردوہ ہے کہ تمام روئے زمین اس کے سامنے دسترخوان کے مثل ہو۔ شیخ موصوف فرماتے ہیں: مگر میں کہتا ہوں کہ مردوہ ہے کہ تمام روئے زمین اس کے سامنے ناخن کے برابر ہو۔ جب مختار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کی یہ شان ہے تو پھر آپ کا کیا کہنا! بلاشبہ آپ حاضر و ناظر ہیں یارسول اللہ۔

اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ وجئنا بک علٰی ھولاء شھیدا۔ (نساء،41) اور اے محبوب تمھیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں گے۔ (کنزالایمان) بارگاہ الٰہی میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہی کی گواہی پر مقدمہ کا فیصلہ ہو جائے گا اور حضور پر کوئی جرح و قدح ہرگز نہ ہوگا کیوں کہ حضور کی گواہی دیکھی ہوئی چیزوں اور مشاہدہ کی ہوئی باتوں ہی میں ہو گی، جو بہرحال قطعی ہوگی تو ثابت ہوا کہ حضور حاضر بھی ہیں ناظر بھی۔ ولکن الظلمین بایات اللہ یحجدون

اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ویکون الرسول علیکم شھیدا۔ (بقرۃ: 143) اور یہ رسول تمھارے نگہبان و گواہ۔ (کنزالایمان)
صاحب روح البیان اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ومعنی شھادۃ الرسول علیھم الملاعۃ علی رتبۃ کل متدین بدینۃ وحقیقۃ التی ھو علیھا من دینہ وحجابہ الذی ھو بہ محجوب عن کمال دینہ فھو یعرف ذنوبھم وحقیقۃ ایمالھم واعمالھم وحسناتھم وسیاتھم واخلاصھم ونفاقھم وغیر ذلک بنورالحق۔ یعنی مسلمانوں پر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کے یہ معنی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہر دین دار کے دین کے مرتبوں پر اور اپنے دین میں سے جس حقیقت پر وہ ہے اس پر اور وہ حجاب جس کے سبب دین کے کمال سے محجوب ہو گیا ہے سب پر مطلع اور خبردار ہیں تو وہ امت کے گناہوں، ان کے ایمان کی حقیقتوں، ان کے اعمال، ان کی نیکیوں، برائیوں اور ان کے اخلاص و نفاق سب کو نور حق کے ذریعہ جانتے پہچانتے ہیں۔ (روح البیان، ص،248ج1)

یہاں یہ ایمانی نکتہ ارباب فکر و نظر کی کھلی دعوت دیتا ہے کہ ایمان و عقیدہ اور اخلاص و نفاق ایسے افعال ہیں جن کا تعلق دل کی دنیا سے ہے اور حضور ان پر بھی اطلاع رکھتے ہیں کہ کون مومن ہے اور کون منافق! مومن تو ہے مخلص ہے یا نہیں، اس کے ایمان کا درجہ کیا ہے ؟ ترقی کرنے سے رک جانے کا سبب کیا ہے؟ منافق ہے تو کس درجہ کا نفاق رکھتا ہے، نفاق کے چنگل سے وہ نکل بھی سکتا ہے یا نہیں، نکلے تو کس طرح ؟ اور نہیں نکلے گا تو اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس سے بڑھ کر حاضر و ناظر کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے ؟

صاحب عقل کو کافی ہے اشارے کی زباں
ورنہ سو بار دلائل بھی ہے بیکار و عبث

ممکن ہے منقصت جو حضرات تفسیر روح البیان کو معتبر و مستند سمجھتے ہوں تو پھر اپنے گھر ہی کی شہادت ملاحظہ کریں۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی مذکورہ بالا آیت کے ذیل میں بالکل یہی تفسیر بیان فرما رہے ہیں: ویکون الرسول علیکم شھیدا۔ تمھارے رسول تم پر گواہ ہوں گے کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نور نبوت کے سبب اپنے دین پر ہر چلنے والے کے رتبہ سے واقف ہیں کہ حضور کے دین میں اس کا کتنا درجہ ہے اس کے ایمان کی حقیقت کیا ہے اور جس پردہ کے سبب وہ ترقی سے رک گیا ہے وہ کونسا پردہ ہے تو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تم سب کے گناہوں، تمھارے ایمانی درجوں، تمھارے تمام اچھے برے کاموں اور تمھارے اخلاص و نفاق سب سے آگاہ ہیں کہ تم میں جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، مسلمانوں کے جیسے اعمال کرتا ہے وہ آیا دل سے مسلمان ہے یا فقط ظاہر میں مسلمان بنتا ہے اور بباطن منافق ہے اس لئے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شہادت دنیا و آخرت میں بحکم شرع امت کے حق میں مقبول اور واجب العمل ہے۔

حدیث شریف میں ہے: کل نبی آدم خطاء وخیر الخطائین التوابون۔ ہر انسان (ما سواانبیاء و اولیاء) خطاکار ہے اور خطاکاروں میں بہتر توبہ کرنے والے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انبیاء عظام و اولیائے کرام کے علاوہ سارے انسان خطاوار ہیں اور توبہ کرنے والے ان میں سب سے اچھے ہیں اور قرآن کریم میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے: وتوبوا الی اللہ جمیعا ایھا المؤمنون لعلکم تفلحون (نور 31) اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو! سب کے سب اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔ (کنزالایمان) اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان پر توبہ و استغفار فرض ہے اور شریعت مطہرہ کے نزدیک توبہ و استغفار میں جلدی کرنا محمود و پسندیدہ ہے۔ چنانچہ باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: عجلوا بالتوبۃ قبل الموت، توبہ میں جلدی کرو اس سے پہلے کہ تمھیں موت آلے۔ اور توبہ کرنے کا طریقہ قرآن کریم نے اس طرح بتایا ہے۔ ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاوک فاستغفر واللہ واستغفرلھم الرسول لو جدوا اللہ توابا رحیما۔ (نساء: 64)
اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب! تمھارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ کرنے والا مہربان پائیں اس آیت پاک میں قبولیت توبہ کی تین شرطیں بیان کی گئی ہیں ان میں شرط اول “جاؤک“ ہے یعنی اے محبوب! تمھاری بارگاہ بیکس پناہ میں حاضر ہوں۔ اب اگر منکرین عظمت رسالت کے عقیدے کے مطابق حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو حاضر و ناظر نہ مانا جائے، مدینۃ الرسول میں محصور و مقید اور روضہء اقدس کے اندر ہی تشریف فرما تسلیم کر لیا جائے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ سارے مسلمان بدستور خطاکار و گنہگار ہی ہیں ان کی توبہ کی کوئی راہ نکل ہی نہیں سکتی کیونکہ مسلمان دنیا کے چپے چپے میں پھیلے ہوئے اور فرش گیتی کے ہر حصہ پر آباد ہیں۔ جن میں بیشتر غرباء ہی ہیں حدیث پاک میں وارد ہوا۔ بدء الاسلام غریبا وسیعود کما بدا فطوبی للغرباء۔ اسلام غریبوں میں شروع ہوا اور جس طرح شروع ہوا اسی طرح عنقریب لوٹ بھی جائے گا۔ (یعنی اخر زمانہ میں اسلام صحیح معنوں میں غریبوں کے اندر ہی ہوگا) تو غریبوں کو مژدہ۔ اس زمانہ میں جب کہ بیشتر دین دار مسلمان غریب ہی نظر آتے ہیں تو اکناف عالم سے سفر کرکے مدینہ پہنچنا ان سے کیوں کر متصود ہو سکتا ہے یعنی یہ بات یقینی ہے کہ غریب مسلمانوں کے اندر حاضری طیبہ کی استطاعت ہی نہیں اور اہل دل مضرات مستطیع تو ہیں مگر اس کی کیا گارنٹی کہ سلامتی کے ساتھ وہ مدینہ پہنچ ہی جائیں گے۔ راستہ ہی میں کہیں جان گنوا بیٹھے تو گویا بے توبہ و گنہگار ہی مرے۔ اور اگر ایک مرتبہ چلے بھی گئے تو اس کی کہا ذمہ داری کہ اب آئندہ ان سے گناہوں کا صدور نہ ہوگا جب کہ ابھی دو چند سطر اوپر آپ پڑھ آئے ہیں کہ انسان خطا و نسیان سے مرکب ہے تو اب پھر مدینہ جائیں اور واپس آئیں اور اگر راستہ ہی میں کوئی گناہ ہو گیا تو وہیں سے لوٹیں اور پھر مدینہ حاضر ہو کر اپنے گناہوں کی بخشش چاہیں۔ اسی طرح آتے جاتے رہیں نتیجتاً مالدار بھی ہو ایک روز فقیر ہو جائے گا اور مدینہ کی حاضری سے محروم ہو جائے گا۔اب یہ مالدار اور دیگر غریب مسلمان کیا کریں ؟ کہاں جائیں ؟ اور سامان بخشش کیسے ہو ؟ گویا توبہ کرنے کے فرمان الٰہی پر عمل کرنا خارج از استطاعت ہوا حالانکہ قانون قدرت ہے: لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا مطلب یہ ہوا کہ کوئی توبہ کر ہی نہیں سکتا پھر توبہ کرنے کا یہ حکم: توبوا ابی اللہ جمیعا۔ اور توبہ کرنے کا طریقہ کہ جاؤک اور آیت کریمہ: لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا اور اس مضمون کی سینکڑوں آیات اور توبہ و استغفار کی ساری حدیثیں منکرین کے دھرم کے مطابق بےکار و بےفائدہ ہو جائیں گی بالآخر نبی کو ہر جگہ حاضر و ناظر ماننا ہی پڑے گا، ان صورت میں تمام اشکال و اغراض بھی جاتے رہے اور آیات و احادیث میں سے کسی کا انکار بھی نہیں لازم آتا وہ یوں کہ جب کسی مسلمان سے بہ تقاضائے بشریت کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو فوراً توبہ کرے اور بارگاہ خداوندی میں یوں عرض کرے کہ خداوند! میں شرم سارانہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور عہد کرتا ہوں کہ آئندہ ارتکاب معاصی سے بچوں گا۔ علیک الصلوٰۃ والسلام یارسول اللہ! آپ تو حاضر و ناظر ہیں اگرچہ میں شامت اعمال کے باعث سرکار دو جہاں کے رخ انور کو نہیں دیکھ رہا مگر حضور تو موجود ہیں فقیر بےنوا کے لئے بارگاہ الٰہی میں دو جملے عرض کر دیں کہ خداوند! اب تو تیرا مجرم میرے دامن رحم و کرم میں اقبال جرم کرتا پناہ لیتا ہے اب تو اس کے گناہوں سے درگزر فرما اور “حدائق بخشش“ کے چند پھول اسے مرحمت فرما دے۔ یہ ایسا طریقہ توبہ ہے جس سے نہ تکلیف مالا یطاق لازم آتی ہے، نہ آیات و احادیث کا انکار اور نہ ہی کسی قسم کا کفر و ارتداد اور اس صورت میں ساری شرطیں بھی پوری ہو جاتی ہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ تمام شروط کے بعد مشروط کا وجود ضروری ہے چنانچہ اب قرآن فرمائے گا: لوجدوا اللہ توبا رحیما۔ تم یقیناً اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاؤ گے۔ مجرم بالانے آئے ہیں جاؤک ہے گواہ: پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے۔

تمام مسلمانوں کا متفقہ اور مسلمہ مسئلہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اللہ کی ذات و صفات کے مظہر اتم ہیں اور یہی فرمان رسول سے بھی مترشح ہے: من رانی فقدرا الحق جس نے مجھے دیکھا اس نے خدا کو دیکھا اور اللہ تعالٰی کی صفتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ : انا جلیس من ذکرنی۔ جو مجھے یاد کرے میں اس کا جلیس ہوں یعنی اس کے پاس ہی ہوں اور حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بھی بعطائے الٰہی اس صفت سے موصوف ہوئے یعنی حضور کی بھی یہی صفت کی گئی کہ: ھو جلیس من ذکرہ۔ یعنی جو حضور کو یاد کرے حضور اس کے پاس ہیں۔
کھلے کیا راز محبوب و محب مستان غفلت پر
شراب قدر الحق زیب جام من رانی ہے

چنانچہ شیخ محقق حضرت مولانا عبدالحق محدث دہلوی اپنی شہرہ آفاق کتاب “مدارج النبوۃ“ میں فرماتے ہیں چونکہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم متصف باخلاق اللہ ہیں تو جس جگہ حضور کا ذکر مبارک ہوگا وہاں حضور کی تشریف آوری بھی ہو گی۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو یاد کرنے والے اور آپ کے نام پر جان چھڑکنے والے ساری دنیا میں خدا معلوم کتنے اور کتنی مختلف جگہوں پر ہیں اور حضور ہر جگہ رونق افروز ہوتے ہیں تو آن واحد میں کروڑوں لاکھوں بلکہ اس سے زیادہ جگہوں پر حضور کا حاضر و ناظر ہونا اس حدیث پاک سے ثابت ہوا۔

اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ فاذا دخلتم بیوتا فسلموا علی انفسکم۔ (نور: 61) پھر جب کسی گھر میں جاؤ تو اپنوں کو سلام کرو۔ (کنزالایمان)
امام قاضی عیاض “شفا شریف“ میں فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس کے تلمیذ شید امام اجل حضرت عمرو بن دینار رضی اللہ تعالٰی عنہم اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ان لم یکن فی البیت احد فقل السلام علی النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تو یوں کہو کہ نبی کریم پر سلام اور اللہ کی بےشمار رحمت و برکت نازل ہو۔

حضرت ملا علی قاری حنفی شرح شفا شریف میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرنے کی دلیل یہ بیان فرماتے ہیں: لان روحۃ علیہ الصلوٰۃ والسلام حاضرہ فی بیوت اصل السلام۔ یعنی یہ اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی روح مبارک تمام جہان میں ہر مسلمان عاشق رسول کے گھر میں تشریف فرما ہے۔ ان اقوال سے صاف معلوم ہوا کہ حضور بلاشبہ حاضر و ناظر ہیں اور لمحہ لمحہ ہماری خبر رکھتے ہیں۔

سنا ہے آپ ہر عاشق کے گھر تشریف لاتے ہیں
مرے گھر میں بھی ہو جائے چراغاں یارسول اللہ

اللہ تعالٰی فرماتا ہے: وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین۔ (انبیاء:107) اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے۔ اور اللہ رب العزت نے اپنی شان میں رب العالمین فرمایا ہے۔ یعنی جن جن والم جہان کا پالنے والا اللہ ہے انھیں عالم جہان کے لئے حضور بھی رحمت ہیں۔ رحمت ہر شے کے لحاظ سے الگ الگ ہوتی ہے ایک ہی چیز ایک کے لئے رحمت ہے تو دوسرے کے لئے سامان زحمت بن جاتی ہے تو گویا اس بات کا علم ضروری ہوا کہ کون سی چیز کسی کے لئے کس وقت اور کس حد تک رحمت ہو گی مثلاً نزول باران رحمت ہے لیکن ضرورت سے کم و بیش ہونے کی صورت میں یہی بارش خرابی کا باعث بن جاتی ہے لٰہذا حضور کا ہر ہر ذرے کے جملہ حالات و کیفیات اور لوگوں کی نفسیات سے آگاہ ہونا ضروری ہوا ورنہ آیت مذکورہ کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے اور حاضر و ناظر کے یہی معنی ہیں۔
قارئین کرام کی عدالت میں عرض کر دوں کہ یہ مسئلہ اگرچہ ایسا قطعی نہیں کہ جس سے منکر کی تضلیل و تکفیر ہو سکے تاہم منکرین حضرات جنھیں عظمت رسول سے چڑ ہے وپ اپنی اس نبی دشمنی اور خبث باطنی کی وجہ سے ضرور کافر و مرتد ہیں اور بےتوبہ مرے تو مستحق عذاب کے سزا وار ہوئے۔

املئن جھنم تھا وعدہ ازلی
نہ منکروں کا عبث بدعقیدہ ہونا تھا

امام قاضی عیاض علیہ الرحمہ نے شفا شریف میں ایک دستور بیان فرما دیا ہے کہ نبی کی شان میں گستاخی موجب کفر ہے۔ فرماتے ہیں: اجمع المسلمون علی ان شاتمہ کافر ومن شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر۔ یعنی تمام مسلمانوں کا اجماعی فیصلہ ہے کہ حضور کی شام والا میں گستاخی کرنے والا اور آپ کا دشنام طراز کافر ہے اور جو شخص اس کے کفر پر مطلع ہو کر اس کے کافر و مستحق نار ہونے میں شک کرے وہ بھی یقیناً کافر ہے۔ باللہ العیاذ والیہ الملاذ۔

رہ گئی بات حضور کے حضور جسمی کی تو سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی یہ رحمت عام نہیں خاص ہے۔
قداریں بادہ نہ دانی بخداتانہ چشی

مخصوص اولیائے امت پر سرکار کرم فرماتے ہیں اور وہ ہر آن، ہر ساعت حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اپنی چشمان سر سے ملاحظہ کرتے ہیں۔ عارف باللہ امام عبدالوہاب شعرانی “میزان الشریعۃ الکبرٰی“ میں فرماتے ہیں: قد بلغنا من الشیخ ابی الحسن الشاذلی وتلمیذہ شیخ ابی العباس المرس وغیرھما انھم کانوا یقولون لو احتجبت عنا رؤیۃ رسول اللہ طرقۃ عین ما اعددنا انفسنا من جمللۃ المسلمین فاذا کان ھذا قول احاد الاولیاء فالائمۃ المجتھد ون اولٰی بھذا المقام۔ شیخ ابوالحسن شاذلی اور ان کے شاگرد شیخ ابوالعباس مرسی اور ان کے سوا اور لوگوں سے مجھے یہ خبر پہنچی ہے یہ حضرات کہا کرتے تھے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا دیکھنا پلک جھپکنے کے برابر بھی ہم سے پوشیدہ ہو جائے تو ہم اپنے آپ کو مسلمانوں میں سے نہ سمجھیں۔ (امام شعرانی فرماتے ہیں) جب ایک ولی کا یہ قول ہو تو پھر ائمہ مجتہدین بدرجہ اولٰی اس مقام کے زیادہ لائق ہیں۔

دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے پر دلائل و شواہد قرآن وحدیث کی روشنی میں اختصار کے ساتھ ہم نے پیش کر دئیے۔ دل اگر تنقیص رسول کے ازار میں مبتلا ہیں تو اتنا بہت ہے مگر منکرین جنہیں صرف انکار کی سوجھی رہتی ہے اور عظمت مصطفٰی کی باتیں جنہیں ایک نہیں بھاتیں ان سے کچھ بعید نہیں کہ ان دلائل کا بھی انکار کر دیں لٰہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان شپرہ چشموں کے آگے انھیں کے یہاں کے اقوال پیش کر دیں۔
یہ دیکھئے بانی مدرسہ دیوبند مولوی قاسم نانوتوی اپنی کتاب “آب حیات“ کے، ص127، 128 پر فرماتے ہیں: آیت کریمہ: النبی اولی بالمومنین من انفسھم کی کل تین تفسیریں ہیں (1) اقرب الی المومنین من انفسھم (2) احب الی المومنین من انفسھم۔ (3) اولی بالتصرف فی المومنین من انفسھم ان تینوں تفسیروں کو غور سے دیکھئے تو دو اخیر کی تفسیریں ایک اول ہی کی طرف راجع ہیں۔

یعنی حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی جانوں سے بھی زیادہ ان کے قریب ہیں اور دو اخیر کی تفسیریں بھی اول ہی کی طرف راجع ہیں یعنی ان کا بھی یہی مطلب نکلتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہم سے اتنے قریب ہیں کہ ہماری جانوں کو بھی ہمارے ساتھ وہ قرب حاصل نہیں اس سے بہتر حضور کے حاضر و ناظر ہونے کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ مخالف نے خود ہی اپنی نوک قلم سے ہمارے مسلک کا اعتراف حق کر لیا۔ ایسا ممکن ہے کہ منکرین کی “آب حیات“ کی اس عبارت پر نظر پڑی ہو ورنہ وہ کبھی اپنے مولوی کا خلاف نہیں کرتے اور حاضر و ناظر کے مسئلہ پر کفر و شرک کی رٹ نہ لگاتے

وہابی گرچہ اخفامی کند بغض نبی لیکن
نہاں کے ماندآں رازے کزوسازند محفلہا

یہ دیکھئے بزرگ مذکور کی دوسری رسوائے کتاب “تحذیر الناس“ جس کے صفحے 11 پر مذکور ہے۔ “النبی اولی بالؤمنین من انفسھم کو بعد لحاظ صلہ من انفسھم دیکھئے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اپنی امت کے ساتھ وہ قرب حاصل ہے کہ ان کی جانوں کو بھی ان کے ساتھ حاصل نہیں کیوں کہ اولٰی بمعنی اقرب ہے اور اگر بمعنی ادب یا اولٰی بالتصریف ہو تب بھی یہی بات لازم آئے گی کیونکہ اجنیت و اولویت بالتصوف کے لئے اقربیت تو وجہ ہو سکتی ہے پر برعکس نہیں ہو سکتا“ اسے کہتے ہیں سحر صداقت جو سر چڑھ کر بولتا ہے یعنی اولٰی بمعنی احب لوجب بھی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم حاضر و ناظر، اور اگر اولویت بالتصوف لو جب بھی حضور حاظر و ناظر۔ یہ حق ہے جو اپنے دشمنوں سے بھی اپنی حقانیت منوا لیتا ہے۔ الحق یعلو ولا یعلٰی۔ نبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے عیب داں اور حاضر و ناظر ہونے کے ثبوت میں اکابر امت اور اجلہ صوفیہ کی روشن عبارتوں کا سلسلہ فلک عشرۃ کاملۃ پر پہنچ کر تمام ہوا۔ ماننے والوں کے لئے اتنے حوالے بھی بہت کافی ہیں اور جو لوگ شقاق و نفاق کے مرض میں مبتلا ہیں انہیں کوئی دلیل بھی مطمئن نہیں کر سکتی۔

اخیر میں انتہائی قلق کے ساتھ شکوہ کرتا ہوں کہ منکرین عظمت رسالت نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اپنے عوام کو اتنا جری اور گستاخ بنا دیا ہے کہ وہ لوگ حضور کی عظمت و شوکت پر زبان طعن دراز کرتے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے کہ وہ امتی ہو کر اپنے ہی نبی کے خلاف زبان کھول رہے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسی نامراد قوم ہو گی جس نے اپنے مذہبی پیشوا کی شان گھٹا کر اپنے جذبے کی تسکین فراہم کی ہو، خدا ایسے شقی القلب لوگوں کے شر سے امت کے پاک طینت افراد کو محفوظ رکھے۔ آمین  

This free website was made using Yola.

No HTML skills required. Build your website in minutes.

Go to www.yola.com and sign up today!

Make a free website with Yola